بچوں سے جنسی زیادتی کی روک تھام کے لیئے احتیاطی تدابیر

بچوں سے جنسی زیادتی کی روک تھام کے لیئے احتیاطی تدابیر

بچوں  سے جنسی زیادتی ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔ اِس کے کم از کم دو پہلو ہیں، ایک طرف اِس جرم کا ارتِکاب کرنے والے لوگ جن کا ذکر ہم نے پچھلے ہفتے کیا تھا، دوسری طرف بچے، والدین اور باقی معاشرہ۔  اِس سنگین مسئلےکی روک تھام کے لیئے ریاستی اداروں  کے اقدامات کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن  معاشرتی کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ والدین کی جانب سے چند  احتیاطی تدابیر اور بچوں کی مناسب آ گاہی سے اس جرم پر معقول حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔

 والدین کو  چاہیئےکہ وہ بچوں کو سمجھائیں کہ جسم کے کچھ خاص حصے ایسے ہیں جنہیں کوئی دیکھ یا چھو نہیں سکتا اور ان حصوں کے نام بھی بتائیں۔ اتنا ضرور سمجھا دیں کہ خدانخواستہ کوئی نا خشگوار واقعہ ہونے پر  بچے بتاتے ہوۓ ہچکچائیں نہ اور جو کچھ ہوا وہ ٹھیک طرح سے بتا سکیں۔ یہاں ایک بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ آپ کس وقت یہ سب انہیں سمجھا رہے ہیں۔ سب سے بہترین وقت وہ ہے جب وہ بِنا کپڑوں کے گھر میں ٹہل رہے ہوں یا پھر نہلاتے وقت ان حصوں کی نشان دہی کرتے ہوۓ سمجھایئے۔

مزید براں یہ ایک ہی مرتبہ سمجھانا کافی نہیں۔ اُن سے اکثر اس موضوع پر بات کریں۔ اُن سے فرضی سوالات پوچھیں کہ کونسی صورتحال میں انکا کیا ردِعمل ہوگا۔ اُن کے جوابات سے بھی آپکو اندازہ ہو جایئگا کہ انہیں آپکی بات سمجھ آگئی ہے یا نہیں۔

 - ed-watch

ضروری نہیں کہ بچے کے ساتھ یہ فعل کرنے والا کوئی اجنبی ہی  ہو ۔ سانحہ قصور کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق زیادتی کرنے والے ٪ 47  افراد بچے کے رشتے دار  اور ٪ 43  دوسرے جاننے والے افراد ہوتے ہیں مثلاً  چوکیدار، ڈرایور یا کوئی بھی اور شخص جو بچے کے لیے غیر مانوس نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بچے انہیں اپنا خیر خواہ سمجھ کر ان پر بھروسہ کر لیتے ہیں اور یہ بچوں کو بہلا پُھسلا کر یا بظاہر دوست بن کر یہ فعلِ بد کر لیتے ہیں۔ اس لیے اپنے بچوں کو یہ سمجھایئے کہ اگر کوئی انہیں اس طرح چھوۓ جو انہیں ناخوشگوار لگے اور انہیں یہ بات راز رکھنے کو کہے تو اپنے والدین کو ضرور بتائیں۔ اس کے ساتھ ان کے دل سے یہ خوف بھی نکال دیں کہ آپ سے کوئی راز بیان کرنے کی وجہ سے انہیں کوئی دوسرا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ انہیں یقین دلائیں کہ آپ ہر بات میں ان کا ساتھ دیں گے۔

بچوں کو یہ بھی سمجھائیے کہ کوئی ان کی شرم گاہوں کی یا ان کی برہنہ تصاویر نہ لے پاۓ کیونکہ آج کل بچوں کے ساتھ بدفعلی کرنے والوں کا سب سے بڑا کاروبار ہی بچوں کی ایسی تصاویر آن لائن فروخت کرنا ہے۔

اپنے بچوں کو نا خوشگوار صورتحال سے نکلنے کا راستہ بھی بتایئے کہ جب کوئی انہیں چھوۓ تو نہ کیسے کہنا ہے۔ اکثر بچے لحاظ کی وجہ سے منع نہیں کر پاتے۔ انہیں سمجھائیے کہ ایسی صورتحال میں زور سے رونا ، چیخنا اور بھاگنا ، بے ادبی یا غلط نہیں ہے ۔

 - ed-watch

دوسری طرف کچھ باتیں والدین کو خود بھی سمجھنے کی ضرورت ہے  کہ  خدا نخواستہ اگر  بچے  کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش آجائے اور وہ آپ کو بتانے لگے تو آ پ کو اسکا ساتھ کیسے دینا ہے۔ اگر آپ پریشان ہو گئے توشاید بچہ ڈر یا شرمندگی کی وجہ سے آپ سے پوری بات بیان ہی نہ کر پاۓ۔ مزید یہ کہ اُس وقت بچے کو نہلانے دھلانے کے بجائے بروقت اسپتال لے جاکر میڈیکل کروایا جانا چاہئیے تاکہ بعد میں ڈی۔این۔ اے کی مدد سے تفتیش میں آسانی ہو سکے۔ فوری طور پر مقدمہ درج کروایئے تا کہ ثبوت ضائع ہونے سے قبل ہی ملزم کو  قانون کی گرفت میں لیا جا سکے۔

سب سے اہم بات یہ کہ اس طرح کے واقعات ہو جانے کے بعد معصوم بچے زندگی بھر کے لیے مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار رہ سکتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف انکی تعلیم بلکہ زندگی کا ہر پہلو متاثر ہوتا ہے۔ اس لیئے والدین کو  بچوں کے نفسیاتی علاج  پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے تاکہ بچوں کا اپنے مستقبل پر اعتماد بحال ہو سکے۔ اس بات کی فکر مت کیجیئے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی سمجھ آجائے گا کہ آپ نے اپنی اولاد کے لیئے بہترین راستے کا انتخاب کیا۔

author avatar
Noor Bano
محترمہ نور بانو نے کراچی یونیورسٹی سے ایم۔کام کی ڈگری لی ہے۔ان کا آغازِسحر کے نام سے ایک پرسنل بلاگ ہے جس میں وہ عوام کی آگاہی اور پاکستان کے مسائل وحل کے متعلق تحقیقی مضامین لکھتی ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share this post

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related posts

break the bias - ed-watch
Vibrant Women from the Sub-continent

As the world celebrates women today and pledges to « Break the Bias » , it is important to take out a few moments to reflect on

social-media-gb8c5ce0cc_1280 - ed-watch
Together for a better internet

Safer Internet Day as an annual celebration is the result of the evolution of the EU-funded Safe Borders project back in 2004. This day aims